زیرِ نظر کتاب میں مصنفہ نے مشرقی پاکستان کی ایک لڑکی اورمغربی پاکستان کے ایک نوجوان کی ملاقات اور اس کا انجام پیش کیا ہے۔ اس ملاقا ت میں اختر نامی اس نوجوان نے اس نوجوان لڑکی سے ملتے ہوئے کہا کہ ہم وطن جہاں بھی ہوں، ہم وطن ہی رہیں گے۔ لیکن کل شام آپ نے اپنائیت کا ثبوت نہیں دیا۔میں نے، یعنی میں نے کیا کیا تھا،لڑکی نے بڑی سادگی سے پوچھا۔آپ نے مجھ پر اعتماد نہیں کیا تھااور میرے ساتھ ٹیکسی میں نہیں بیٹھی تھیں،اس نے گلہ آمیز لہجے میں کہا۔کنول نینی نے مسکراتے ہوئے کہ میں یہاں اجنبی ہوں اور کسی کو نہیں جانتی۔اسکے معنی یہ ہوئے کہ جو فاصلہ جغرافیائی حدود نے قائم کیا ہے وہ دوری آپ کے دل میں بستی ہے ، اختر نے سوال کیا۔
میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی، اس نے پھر سادگی سے پوچھا۔یعنی آپ مجھے اپنا ہم وطن نہیں سمجھتیں ورنہ آپ کو اعتبار کرنے سے پہلے جاننے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی، اختر نے جلدی سے ذہانت بھری بات سوچی۔ایک بار پھر مکئی کے دانے مسکرا اُٹھے اور کہا کہ یہاں کے لوگ باتیں بڑی ذہانت سے کرتے ہیں۔لیکن دراصل ذہین نہیں ہیں،اختر نے ابرو اُٹھا کر پوچھا۔