جہانگیر کے دور میں بھی علم و فنون کی تر قی میں بہت کام ہوا۔جہا نگیر نے فا ر سی اور عر بی کی تعلیم حا صل کی ۔ اسے حسا ب ، فلسفہ سے خصو صی دلچسپی تھی۔جہانگیر نے سپہ گر ی اور نظم و نسق کی اعلیٰ تر بیت بھی حا صل کی۔اسے تاریخ اور فن سپاہ گری میں خاص ملکہ حاصل تھا۔مغلو ں کے عہد میں علو م و فنون اور تہذ یب و تمدن کما ل پر پہنچ گئے ار دو مستقل زبان بن گئی ۔چنانچہ اس کی دا غ بیل ہند و ؤں اور مسلما نوں کا میل جو ل ہو تے ہی بہت پہلے پڑ چکی تھی ۔ سنسکر ت کی کتا بوں کا تر جمہ فا ر سی میں ہوا۔ عا لی شان در سگا ہوں کا جا ل ملک بھر میں بچھ گیا۔ شہروں میں دا را لعلوم بن گئے ۔
بڑے بڑے کتب خا نوں کی بنیا د پڑی۔ شا ہجہاں کے عہد میں پو رب (یوپی اور بہار) کی یہ حا لت تھی کہ کو ئی قا بل ذکر مقا م در سگا ہوں سے خا لی نہ تھا۔ شا ہجہاں پو رب کو ہند و ستان کا شیر ا ز کہا کر تا تھا۔ ہند وؤں میں بھی فا ر سی کے ا دیب اور شا عر پیدا ہو ئے ۔غرض بابر،ہمایوں کے دور کی طرح جہانگیر کے دور حکو مت میں بھی ہند و ستان کی تا ریخ کا سنہری دور مغلو ں ہی کا دور ہے ۔ جس میں یہ ملک ہر لحا ظ سے انتہا ئی بلند ی پر پہنچا ۔
سا را ملک یکجا ہوا ۔ تہذ یب و تمدن اور عظمت و شو کت میں وہ سب سے آ گے نکل گیا۔ ہمہ گیر امن پیدا ہوا۔ عوام کو خو شحالی نصیب ہو ئی ۔ دو لت کی ریل پیل فو جی اور جنگی سا ما نوں کی کثرت با د شاہوں کی ر یا یا پر و ری ، وزیروں کا حسن انتظام ملک کی آ بادی ، سر حد و ں کی حفا ظت تجا رت کے فر و غ صنعت و عر فت کی تر قی اور تعلیم کی عمو میت کے لحا ظ سے ایسا دور نہ پہلے اسے نصیب ہو سکا تھا۔ نہ بعد میں نصیب ہوا۔