کتاب ’’ مضامینِ پطرس ‘‘ اردو ادب کا بے بہا سرمایہ ہے ۔ یہ کتاب ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ مصنف نے مغرب میں تعلیم پا کر نئی سوچ کو جس انداز میں ان مضامین میں سمویاہے ،کچھ انہی کا خاصا ہے۔ وہ پاکستان میں میں اولین مزاحیہ مضامین لکھ کر مزاحیہ قلم کاروں کے امام بن چکے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں 11مضامین شامل ہیں۔ ان تمام مضامین میں مصنف اپنے آپ کو مزاح کا نشانہ بنا تے ہوئے ، خود کو معصوم اور بے بس اور مصیبت زدہ ظاہر کر کے پے پایاں مذاح کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے تمام مضامین میں اپنے لئے لفظ ’’ہم ‘‘ کچھ اس طرح استعمال ہوا ہے کہ بعد میں آنے والے تمام مذاح نگاروں نے ان کی تقلید کی ہے ۔ وہ مزاح کے بے تاج بادشاہ ہیں اور ان مضامین میں انہوں نے جس طرح ’’ہاسٹل میں پڑنا‘‘ اور’’سویرے جو کل آنکھ کھلی میری ‘‘ پر ،پرمزاح انداز میں اظہار خیال کیا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کی حس مزاح ملاحظہ فرمائیے کہ اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’ اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تومجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتاہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کر یں۔ ان مضامین کے افراد سب خیالی ہیں ۔ حتی ٰ کہ جن کے لئے وقتاََ فوقتاََ واحد متکلم کا صیغہ استعما ل کیا گیا ہے وہ بھی ہرچند کہیں کے ہیں اور نہیں ہیں ۔ آپ تو اس نکتے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن کئی پڑھنے والے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس سے پہلے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی ۔ان کی غلط فہمی اگر دور ہو جائے تو کیا حرج ہے۔ جو صاحب اس کتاب کو کسی غیر ملکی زبان میں ترجمہ کرنا چاہیں وہ پہلے اس ملک کے لوگوں سے اجازت حاصل کر لیں ۔‘‘