KUCH AUR NAHI

اس کتاب میں دوناولوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ آئیے دونوں کا خلاصہ چند الفاظ میںَ پیش کرتے ہیں:۔
کچھ اور نہیں:
ناول’’کچھ اور نہیں ‘‘کے ایک مضمون’’توجہ کی طالب‘‘ میں مصنفہ نے ایک ایسے کردار پر روشنی ڈالی ہے جو اپنی جوانی کے دنوں میں محبت کے جذبے سے آشنا ہوئی مگر شفقتِ پدری اور مادری کو ترستی رہی۔ اس عدم توجہ کی بناء پر وہ غلط راستوں کا انتخاب کربیٹھی ۔ اس کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے ناول نگار لکھتی ہیں کہ نصرت دراصل آکسیجن گیس تھی جتنی دیر وہ بھڑکاتی رہتی آگ لپکتی رہتی جونہی وہ آزمانے یاسستانے کے لئے خود کو علیحدہ کرتی ؛عشق کا شعلہ چھوٹی چھوٹی تحقیقاتی کمیٹیوں کی طرح اپنی موت آپ مر جاتا۔اتنے سارے عشق کرنے کے بعد جب وہ مکمل طور پر پچھاڑے ہوئے پہلوان کی طرح منہ سے بدنامی کی دھول پونچھتی ہوئی اٹھی تو اسے پتہ چلا کہ وہ اپنے چاہنے والوں کے لئے جی کا جنجال تھی اور جس کو انسان کا اپنا دل نہ چاہے ہیرے موتیوں سے بنا ہوا اس کا پیار بھی پنجالی کی طرح گلے کا بوجھ بن جاتا ہے۔
گھر کے چچیرے سمیرے خالہ زاد پھوپھی زاد سب بھائی قسم کے رشتے اس کیلئے بیکار تھے۔عشق کی منزلوں سے وہ یوں فارغ ہوئی جیسے معمر خاتون حیض کی مصیبت سے فراغت پا تی ہے۔اس ناول میں انسان کی اصل حقیقت سے

پردہ کشائی کی گئی ہے اور قاری کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے انسان جوانی میں اچھائی یا برائی کو نہیں سمجھتا لیکن جب ووقت گزر جاتا ہے تو پچھتانا اس کا مقدر ٹھہرتا 
مراجعت:
ناول’’مراجعت ‘‘میں ایک نوجوان جس کا نام زاہد اقبال ہے جو اپنی بیوہ ماں عزیز فاطمہ کا اکلوتا بیٹا ہوتا ہے۔اس کی والدہ اسے باپ کے انتقال کے بعد بہت نازونعم سے پالتی ہے لیکن بیٹا جیسے ہی جوان ہوتا ہے؛ مغربی تعلیم کی وجہ سے اس پر مغربیت کا ملع چڑھ جاتا ہے ۔ وہ دیسی رسم ورواج اور لوگوں سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ اسکی ماں بہت مشکلوں سے اسے راہ راست پر لاتی ہے جس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ ماں کی محبت ہمیشہ جیت جاتی ہے۔ اس ناول میں قدم قدم ماں کی ممتا اپنی پوری آب و تاب سے براجمان نظر آتی ہے۔

You might be interested