اس عظیم المرتبت کتاب کے مصنف حضرت شاہ ولی اللہ ؒ اپنی تصنیف کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ایک روز میں عصر کی نماز پڑھ کر اللہ سے دھیان لگائے بیٹھا تھا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ حضرت نبی اکرمؐ کی روح مبارک آئی ہے۔ آپ ﷺ کی روح نے مجھے کوئی چیز اوڑھائی اور مجھے ایسا خیال ہوا کہ گویاکوئی چادر مجھ پر ڈالی گئی ہے۔اس حالت کا مطلب میرے دل میں یہ ڈالا گیاکہ یہ دینِ اسلام کی نئی طرزسے بیان کرنے کی طرف اشارہ ہے۔اس دن سے میں اپنے سینے میں ایک نور سا پاتا ہوں جو ہر وقت پھیلتا جاتا ہے۔اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے الہام ہوا کہ میرے متعلق یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ ایک نہ ایک دن میں دین کا بڑا کام ضرور کروں گا۔
اب زمین اپنے رب کے حکم سے جگمگا اُٹھی ہے اور غروب کے وقت شعاعیں انسانوں پر اسی طرح پڑنے لگی ہیں جیسے طلوع کے وقت پڑتی تھیں اور مجھے یہ معلوم ہوا کہ اب وقت آ پہنچا ہے کہ رسول اللہ ؐ کی شریعت اس زمانے میں سائینٹفک دلیلوں سے پوری طرح ثابت کی جائے۔ اس کے بعد میں نے حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو خواب میں دیکھا ۔ اس وقت میں مکہ مکرمہ میں تھا۔ مجھے ایسا خیال ہوا کہ گویا انہوں نے مجھے ایک قلم دے کر فرمایاکہ ہمارے نانا محمد رسول اللہؐ کا قلم ہے۔