حضرت سفیان ثوریؒ شریعت و طریقت میں کامل اور علوم و رسالت کے وارث تھے جس کی وجہ سے لوگوں نے آپ کو امیر المومنین کا خطاب دیا تھا اور ظاہری و باطنی طور پر آپ کو مکمل دسترس حاصل تھی اور بہت سے مشائخ آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم ؒ نے آپ کو سماعت حدیث کی دعوت دی اور جب آپ وہاں پہنچ گئے تو فرمایا کہ مجھ کوتو صرف آپ کے اخلاق کا امتحان مقصود تھا ورنہ در حقیقت کسی کام کی غرض سے نہیں بلایا۔
آپ پیدائشی متقی تھے حتیٰ کہ ایک مرتبہ آپ کی والدہ نے ایام حمل میں ہمسایہ کی کوئی چیز بلا اجازت منہ پر رکھ لی تو آپ نے پیٹ میں تڑپنا شروع کر دیا اور جب تک انہوں نے ہمسایہ سے معذرت طلب نہ کی آپ کا اضطراب ختم نہ ہوا اور آپ کے تائب ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے الٹا پاؤں مسجد میں رکھ دیا جس کے بعد یہ ندا آئی کہ اے ثور ؒ مسجد کے حق میں گستاخی اچھی نہیں۔ بس اسی دن سے آپ کا نام ثورؒ پڑ گیا۔