زیرِ نظر کتاب کے مضامین میں موضوعات اور الفاظ دونوں کو یکساں حیثیت حاصل ہے۔ اُن کا اندازِ بیان معنویت سے بھرپور ہے۔ مختلف الفاظ و تراکیب اور اشعار کی جابجا پیروڈی، محاورات کا برجستہ استعمال ان کے انداز کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ بیتُ تکی بات سے تُک کی بات نکالنا مزاح نگار کا منصب ہے اور مصنف اس پر پورا اترتے ہیں۔اپنی پہلی کتاب ’’چراغ تلے‘‘کی اشاعت کے بعد یوسفی اردو ادب میں ایک صاحبِ اسلوب مزاح نگار کے طور پر جانے اور پہچانے گئے۔
’’پڑیے گر بیمار‘‘،’’چارپائی اور کلچر ‘‘،’’کرکٹ‘‘،’’جنونِ لطیفہ‘‘،اور’’کافی‘‘وغیرہ جیسے مضامین اردو نثر میں کم کم دیکھنے کو ملتے ہیں چراغ تلے کے مضامین کویوسفی صاحب بجا طور پرکھٹے میٹھے مضامین قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کی تخلیقات میں مختلف ذائقوں کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔اردو،فارسی،عربی،انگریزی،فرانسیسی اور ہندی زبانوں کے مطالعے نے انہیں کئی نازک مرحلوں پر سہارا دیا ہے۔چنانچہ یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ مصنف نے اپنی پہلی کتاب کے ساتھ اسلوب کی تازگی اور مواد کی قدرت کی بدولت قاری اور نقاد کے دلوں میں گھر کر لیاہے۔