مسلمان بگولے کی طرح اُٹھے اور آندھی کی طرح پورے جزیرۃالعرب پر چھا گئے۔ عرب کے قبائل اسلام کی حقانیت اور تعلیمات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ مسلمان قوم کے اعلیٰ اوصاف جیسے خوف خدا،عبادت و ریاضت، امیر کی اطاعت ، اتحاد و اتفاق، ایثا ر ، اخلاق،اخوت اور صدق نیت نے ہر ایک کے دل گھرکر لیا۔ چنانچہ مسلمان جدھر گئے ، لوگوں کو متاثر کرتے گئے۔اس عظیم انقلاب کی وجہ سے اس وقت کی سپر پاورز ،قیصر و کسریٰ(روم اور ایران ) مسلمانوں کے بڑھتے سیلاب کے آگے بندھ باھندنے پرکمر بستہ ہوگئیں۔
مسلمان عراق پر قبضہ کر چکے تھے اور اب ان کا رخ بلادِ شام کی طرف تھا جو سلطنت روما کا مضبو ط گڑھ تھا اور قیصر روم ہرقل یہ نہیں چاہتا تھا کہ مسلمان اس کی سر زمین پر ایک قدم بھی رکھیں۔
جنگِ اجنادین 13ہجری بمطابق 30 جولائی 634 عیسوی یعنی جنگ یرموک سے دو سال پہلے لڑی گئی۔جنگ اجنادین شاہ روم کی طاقتور حکومت کے خلاف مسلمانوں کی پہلی شاندار اور فیصلہ کن فتح تھی۔ اس سے پہلے عربوں اور رومیوں کے درمیان چند معمولی جھڑپیں ہوچکی تھیں جس کے بعد رومی پسپا ہوکر شام کے شمالی علاقوں میں قلعہ بند ہو گئے تھے ۔