اہل یورپ نے بادشاہ کانسٹنٹائن کی کوششوں سے عیسائیت کو سرکاری مذہب تو مان لیا لیکن یورپ کے بادشاہوں نے اہل کلیسا کو اتنے زیادہ اختیارات دے دئیے کہ کلیسا لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ سرکاری معاملات میں مداخلت کرنا اپناحق سمجھنے لگا۔ کلیسا کی مداخلت کا یہ سلسلہ 228ء میں شروع ہوا اور سولہویں صدی میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اہل کلیسا کی مہر کے بغیر کو ئی بادشاہ حکومت نہیں کر سکتا تھا۔ چرچ کی آمدنی کے لئے ریاست کی وسیع و عریض زمینیں چرچ کی ملکیت تھیں جس سے پوپ اور پادری بادشاہوں سے زیادہ پر تعیش زندگی گزارنے لگے۔ انہوں نے چرچ کے نام پر بڑی بڑی فوجیں رکھی ہوئی تھیں۔
چرچ میں کرپشن کا یہ عالم تھا کہ گناہ گاروں کواپنے گناہ بخشوانے کے لئے پادریوں کو بھاری بھرکم نذرانے دینے پڑتے تھے۔یوں یورپ کے عوام کلیسا کے خونخوار پنجوں میں سسک رہے تھے۔ان حالات میں جرمنی کے شہر وٹنگبرگ سے ایک شخص اٹھا جس نے مذہب میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی اور اس کا نام مارٹن لوتھر تھا۔ اس نے چرچ کی تطہیر یعنی اصلاح کی تحریک شروع کی اور چرچ میں زہر کی طرح سرایت شدہ کرپشن کے خلاف نعرہ بلندکیا جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ لوگ اس کی اصلاحی تحریک کا حصہ بنتے گئے۔ یہاں تک کہ جرمنی کے شہزادے اور بادشاہ بھی اس کے ہمنوا بن گئے اور انہوں نے مل کر چرچ کو رومن اثر سے نکالا اور چرچ میں اصلاحات نافذ کیں۔ اس کی غیرمعمولی کارناموں کی وجہ سے اسے سولہویں صدی کا سب سے متاثر کن شخصیت قرار دیا گیا۔