زیرِ نظر کتاب میں مصنفہ نے امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ پہنچ کر کسی نو وارد نے پڑتا لگایا کہ کسی ملک میں نوشہری ہونے کے معنی یہ ہیں کہ زیادہ سے زیادہ سوال نہ پوچھے جائیں ،ورنہ لوگ آپ کو انجان سمجھ کر کمتر جانیں گے۔لوگوں کو اشیاء کی طرح سمجھیں ،استعمال کریں اور پھر آزاد چھوڑ دیں۔درد دل سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں۔ اپنے آبائی وطن کو پہلی بیوی کی مانند کہیں اندر نیت کر رکھیں ،لیکن اس کی خوبیوں خرابیوں کا قطعاًذکر نہ کریں ۔پتہ نہیں سننے والے پر اس ذکر کا کیا اثر ہو ایک ہی شخص کودو مرتبہ دھوکہ نہ دیں۔ آپ کے وطن کی شہرت کا سوال ہے پسماندہ ترقی پذیر ملکوں کے نادار لوگوں کی مدد کرنے والے اداروں کو چندہ نہ دیں،نہ جانے ان کے پیچھے سیاسی گٹھ جو ڑ کیا ہو ۔
اسی کتاب کے ایک مضمون’’چاچا صمد‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ چاچا صمد ہمارے ساتھ والوں سے آیا تھا اور پکا پینڈو تھا۔ چاچے میں ایک جیتی جاگتی، ہنس مکھ، پرامیدروایت زندہ تھی۔وہ مبالغے کی حدتک سوشل تھا اور کسی سیاسی لیڈر کی مانند اسے گفتگو کا فن ازبر تھا۔ گھر کا دروازہ کھلتے ہی وہ برسات کی ٹھنڈی ہوا کی طرح خوشی کے جھونکے ساتھ لاتا۔ چاچا صمد کا سواگت سبھی کرتے، سب سے پہلے وہ اماں کو تلاش کرتا ۔ ماں کے پاس وہ پیروں بھار بیٹھ کر وہ ہر بات سرگوشی اور پریم سے کرتا۔